عوام الناس کے لیے لائحہ عمل سودی معاملات میں براہِ راست ملوث ہونے سے اجتناب کریں۔ایسے اداروں کی ملازمت سے علیحدہ ہونے کی کوشش کریں جو براہِ راست سودی لین دین کرتے ہیں۔بینک اکا ؤنٹ رکھنا ضروری ہو تو کرنٹ اکاؤنٹ رکھیں یا لاکرزاستعمال کریں۔کسی کاروبار‘ تعمیری کام یا سہولت کی خریداری کے لیے سودی قرض نہ لیں۔
اجتماعی زندگی میں سودی نظام ہونے کی وجہ سے جو سود بالواسطہ ہمارے وجود میں جارہا ہے‘ اس کا کفارہ اس طرح ادا کریں کہ سودی نظام کے خاتمہ کے لیے مال و جان سے جہاد کریں۔ اس کی عملی صورت یہ ہے کہ عوام الناس کو سود کی حُرمت اور خباثتوں سے آگاہ کریں اوراس حوالے سے ذہنوں میں پیدا ہونے والے اشکالات کودور کرنے کی کوشش کریں۔
کسی ایسی اجتماعیت میں شامل ہوں جو سودی نظام کو ختم کرنے کے لیے کوشاں ہو۔اس اجتماعیت کی افرادی قوت کو بڑھانے کی کوشش کریں تاکہ جیسے ہی باعمل افراد کی معتد بہ تعداد میسر آجائے ،منظم احتجاج‘ سول نافرمانی اور اہم شاہراہوں اور حکومتی اداروں کا پُر امن گھیراؤ کر کے حکومت کو سودی نظام کے خاتمہ پر مجبور کر دیا جائے۔ سپریم کورٹ کے 24جون2002ء کے فیصلے نے ثابت کردیا ہے کہ اس ملک سے سودی نظام کا خاتمہ ایک عوامی انقلابی تحریک کے بغیر ناممکن ہے ۔ حکومت کے لیے لائحہ عمل
ا – اصولی اقدامات
حکومت پاکستان سود سے متعلق سپریم کورٹ کے 24جون 2002ء کے فیصلے کو کالعدم قرار دے کر وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کو برقرار رکھنے کے لیے سپریم کورٹ میں اپیل داخل کرے اور ملک سے سودی نظام کو ختم کرنے کے لیے مناسب مہلت حاصل کرلے۔
دستورِ پاکستان سے وہ جملہ ترامیم فوری طور پر ختم کردی جائیں جو بلا سودی معیشت کے قیام کے حوالے سے رکاوٹ کا سبب بنتی ہیں۔
’’کمیشن فار اسلامائزیشن آف اکانومی‘‘ کو مؤثراور فعال بنایا جائے‘ حسبِ ضرورت اس میں مزید ماہرین و علماء کو شامل کیا جائے اور اب تک مختلف کمیٹیوں نے غیر سودی معیشت کے قیام کے لیے جو سفارشات دی ہیں ‘ ان کی روشنی میں عملی اقدامات کیے جائیں۔
رِبا کی حرمت ‘ اس کی خباثت اور اس حوالے سے اشکالات کے جوابات کو آیاتِ قرآنیہ ‘ احادیث نبویہ ؐ اور عقلی دلائل کی روشنی میں جملہ ذرائع و ابلاغ کے ذریعے نشر کیا جائے‘ تاکہ لوگ سود کو چھوڑنے اور اس سلسلہ میں کسی فوری منفعت کے نقصان کو برداشت کرنے کے لیے ذہناً و قلباً آمادہ ہو سکیں۔
سرمائے یا نقد پر ربا کی لعنت کو با لکلیہ اس وقت تک ختم نہیں کیا جاسکتا جب تک زراعت کو بھی ربا سے پاک نہ کردیا جائے۔ لہٰذاجاگیر داری اور غیر حاضر زمینداری کے خاتمہ کے لیے بھی اقدامات کیے جائیں۔
ب – فوری عملی اقدامات
صوبائی اور وفاقی حکومتوں کے باہمی قرضوں نیز وفاقی حکومت کے اسٹیٹ بینک سے لیے گئے قرضوں پر سود فوری طور پر ختم کردیا جائے ‘اس لیے کہ اس سے آمدن اوراخراجات پر من جملہ کوئی اثر نہیں پڑے گا۔
نیم سرکاری اداروں اور کارپوریشنوں جیسے واپڈا‘ ریلوے‘ ٹیلیفون وغیرہ کو جو قرضے حکومت نے دیے ہیں ‘انہیں فوری طور پر ایکویٹی میں تبدیل کردیا جائے۔
حکومت کی بچت اسکیموں کے تحت حکومتی قرضوں پر مشتمل ہر نوع کے کھاتوں ‘ بانڈز‘ سرٹیفکیٹس اور سیکیوریٹیز وغیرہ پر سود کی ادائیگی فوری طور پر بند کی جائے۔ نیز ان قرضوں کےاصل زر کی ادائیگی کے لیے مناسب لائحۂ عمل کا اعلان کیا جائے۔
سرکاری ملازمین کو مکان‘ کار یا موٹر سائیکل کی خرید کے لیے دیے جانے والے قرضوں پر سے سود لینے اور پراویڈینٹ فنڈ پر سود دینے کو فوراً ساقط کردیا جائے ۔
بین الاقوامی سودی قرضوں کی ایڈجسٹمنٹ کے لیے قرض – ایکوئٹی سویپ کا طریقہ کار اختیار کیا جاسکتا ہے( اس طریقہ میں غیر ملکی حکومتوں / اداروں کو اس بات کی اجازت دی جاتی ہے کہ وہ اپنے واجب الوصول قرضوں کے عوض ملک کے اندر حقیقی سرمایہ کاری کریں ‘جس کے لیے حکومت انہیں لوکل کرنسی میں رقم مہیا کرنے اور ان کے منافع کی ادائیگی زر مبادلہ کی صورت میں کرنے کی ضمانت دیتی ہے)۔اس کے لیےلاطینی ممالک کا تجربہ مفید ہوگا۔
تجارتی بینکوں کے لیے اجازت ہو کہ وہ اصلی سرمایہ کاری اور تجارت وغیرہ کے شعبوں میں بھی سرمایہ کاری کرسکیں۔ اس میں نہ کوئی شرعی قباحت آڑے آتی ہے اور نہ ہی کوئی دوسری مشکل ہے۔
اسٹاک مارکیٹ میں سٹہ بازی کی صریح ممانعت ہو اور حصص کی صرف حقیقی خریدو فروخت کی اجازت دی جائے۔
بینکوں کے آڈٹ کا شرعی اعتبار سے ایک اضافی محکم نظام قائم کیا جائے۔